میں کھوتا ہوں


میں کھوتا ہوں

کنجر نامہ میں  مویش  کا تعارف پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔  مویشی کی کھوتیانہ شخصیت سے اچھا تعارف حاصل ہوگیا۔ مگر ایک راز ابھی تک نہیں کھل سکا کہ مویش کا نام کھوتا کیونکر اور کب پڑا۔  عوام الناس کا خیال ہے کہ  اسکا نام  چند سال قبل  سائیکاٹرک ہاسپٹل میں  چرس نا ملنے پر احتجاجاً ہر کسی کو دولّتیاں مارنے پر دیا گیا ہے جو کہ راقم کی معلومات کے مطابق غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھوتا نام  فاروق درویش نے خود ہی اپنے آپ کو دیا ہے۔ آپ چونک گئے نا ؟
اس   نام کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے اور یہ کہانی بڑی پرانی ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آتش جوان تھی ۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے پڑھے لکھے لوگ  فوراً بول  پڑیں گے کہ آتش جوان  تھا   ۔ جناب عالی! بات یہ ہے کہ آپ آتش کو جانتے نہیں ہیں۔  یہ الہڑ دوشیزہ مویش کی پڑوسن تھی  جس  پر مویش کی گندی نظر تھی ۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ مویش ایک انتہائی  پَھٹّو ُ قسم کا شخص ہے ۔ اس قسم کے معاملات میں فائز المرام  ہونے کے لیے جس بدمعاشی کی ضرورت  ہوتی ہے وہ اس سے آج تک محروم ہے۔ ایک دن  کسی باگڑو دوست نے اسے دیسی ٹُھرّے پر چرس پلادی  جس پر ٹُن مویش آتش کے گھر میں کود گیا۔ اگر کُود ہی گیا ہوتا تو کوئی بات نا ہوتی وہاں جاکر  اس نے امریش پوری کی طرح قہقہے لگانے شروع کردیے  ۔ بدقسمت مویش کو معلوم نا تھا کہ یہ قہقے اس الہڑ مٹیار کی چھیڑ ہیں۔ مشتعل ہوکر آتش نے بروس لی اسٹائل کی چیخ ماری اور ایک فلائنگ کک مویش کے تھوبڑے پر دی اور مویش     ٹٹّی (المعروف   ٹوائلٹ ) کی  زمانہ قدیم موری  ( جس میں  گھر کا ایک مسٹنڈا  اور نکھٹو  بچہ تازہ تازہ فارغ ہواتھا ) میں منہ کے بل جا کر اس طرح گرا کہ  بھنگی کی ضرورت نہیں رہی۔ (یار لوگ جانتے ہیں کہ مویش کے چہرے پر آئی پھٹکار اسی فلائنگ کک کا نتیجہ ہے )۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی ، آتش کے ہاتھ ایک ایسا  وائپر ہاتھ  لگ گیا کہ جس  کا ڈنڈا   زمانہ قدیم  کی کسی  ناقابل ریخت  لکڑی کا بنا ہوا تھا   اور صورتحال یوں تھی کہ مویش کا منہ موری میں  آدھا دھڑ ٹٹّی میں اور آدھا  دھڑ باہر  جسکی خاص  بات مویش کی تشریف کا  اس طرح اٹھا ہوا ہونا جس   کی مثال  صرف  انگریزی میں شکاری لوگ  سٹنگ  ڈک سے دیتے ہیں۔  اور ۔۔۔۔۔اس  ظالم  حسینہ نے وہ کچھ کر دکھایا  کہ جس  کے بارے میں بڑے بڑے لفنگے اور بدقماش  لوگ دھمکیاں ہی دیتے رہ جاتے ہیں ۔ جوکچھ ہوا  وہ  بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ اس صورتحال کے  گھناؤنے  پن اور اسکی سنگینی کا انداز ہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بالی ووڈ نے اس پر گانا بنا دیا ۔ آپ نے تو سنا ہی ہوگا  " ڈنڈا ہے پر گندا ہے یہ "  جسے بعد میں اداکاروں اور فلمی یونٹ  کے احتجاج پر " گندا ہے پر دھندہ ہے یہ " سے تبدیل کردیا گیا۔  بہرحال  اس ڈنڈے کی وجہ سے مویش کی چیخیں دو کوس دور تک سنی گئی تھیں۔  قصّہ مختصر  محلے والے جلد ہی آگئے اور ڈنڈے کو اس گندی جگہ سے نکالا گیا۔ مگر اس  حادثہ کی وجہ سے مویش کو ایک ہفتہ اسپتال  کے بیڈ پر منہ کے بل لیٹ کر گذارنے پڑے ۔ پتا نہیں وہ حسینہ جفا کیش  کا فحش  ستم تھا یہ تشریف  کے مرکز میں ہونے والی تکلیف  ،  مویش  جس طرح بھینچوں بھینچوں  رویا  اسے دیکھ کر ہسپتال میں تکلیف  اور  امراض سے بے حال  مریض بھی پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسی سے بے حال ہوتے رہے۔  آج کئی دہائیوں کے بعد بھی مویش کی چال اس سانحہ  ماڈل ٹاؤن کا پتا دیتی ہے۔

 اپنے ناپاک عزائم میں یادگار ناکامی  کے بعد مویش کا دل ہر چیز سوائے دیسی ٹھّرے اور چرس کے ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا اور بال بڑھا کر ہِپّی بن کر دنیا کی سیر کو نکل گیا۔  ہِپّی بننا مویش کو بڑا  راس  آیا ۔ دنیا جہاں کی مفت سیریں، بے حد و حساب اور مفت چرس ، گانجا اور افیم  اور  مفت کا "ٹھنڈا گوشت "۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا  مگر یہ ٹھنڈا گوشت  اب مویش کو زہر لگنے لگ گیا تھا اس ٹھنڈے  گوشت کی وجہ سے مویش کو وہ وہ بیماریاں لگیں کہ   پاکستان کے سڑک چھاپ حکیموں  (جن کا دعویٰ ہے کہ سوائے موت کے انکے پاس ہر بیماری کا علاج ہے ۔ کینسر  کو تو وہ ایک خوراک میں سیدھا کرلیتے ہیں)  تک نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی تھی۔ حکیموں اور سنیاسی باواؤں نے اپنے اپنے اشتہاری بورڈوں پر  "  فاروق  بٹ سے معذرت" کے الفاظ تحریر کرالیے تھے۔   خورشیدان ِ طب و حکمت  کی متفقہ رائے تھی  کہ  مویش کے نظام میں ایسی خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ   فطرت کے مقاصد کی تکمیل  کی بجائے نکاسی  آب کے لائق ہی رہ گیا ہے ۔   لاہور  کے  ایک  عالمی  شہرت یافتہ  سنیاسی جٹادھاری باوا کو تو اس نے علاج کے لیے اتنا تنگ کیا  سنیاسی باوا   کو  دو درجن   دیسی  قسم  کی  کانوں سے دھواں نکال دینی والی گالیاں اور ایک عدد زوردار دار لات  مویش کی تشریف  پر رسید کرنی پڑی۔  جسکا بدلہ  مویش نے انکا حشیش بھرا صندوق چُرا کر لیا۔  جس کا غصہ آج بھی سنیاسی جٹا دھاری باوا کو ہے ۔  باوا سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ باوا نے فاروق مویش سے انتقام لینے کا ایک انوکھا پروگرام تیار کیا ہوا ہے۔  اس مقصد کے لیے  باوا نے نہایت مہنگی اور ولایتی اسکاچ خرید کر رکھی ہے جسے وہ مویش  کے منہ پر  بہانا چاہتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ باوا اتنی مہنگی شراب کی بوتل  کی کیا ضرورت تھی تو انہوں نے تڑخ کر فرمایا کہ  "مجھے کیا کھوتا سمجھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ میں یہ شراب پہلے اپنے گُردوں کی چھلنی سے گذاروں گا اور اسکے بعد مویش کے منہ پر بہاؤں گا "
لیکن مویش بھی اپنی دھن کا پکّا تھا اس نے  بھارت یاترا کی اور ایک تانترک کو ڈھونڈ لیا جس نے علاج سے پہلے اسے شُدّھی کیا اور چالیس روز لگاتار گئو ماتا  کاپیشاب پلایا۔ تب جاکر مویش  کی روٹھی خوشیاں واپس لوٹ آئیں۔ مویش نے ساتھ ہی ساتھ "ٹھنڈے گوشت" سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی ۔ اب مویش ٹھنڈے گوشت کی بجائے ہاٹ کیک کا  طلبگار ہوگیا اور دنیا اسی چکر میں پھرتا رہا ۔ اس چکر میں اسے ہمیشہ گالیاں  اور جوتے پڑے ۔کئی بار جیل  بھی گیا  (جسکا ثبوت یہ تصویر ہے )   


کئی بار اسکی جم کے دھلائی ہوئی مگر یہ باز نا آیا۔ دنیا بھر میں معاملات طلب و رسد پر چلتے ہیں جبکہ مویش کے یہاں یہ اصول کچھ مختلف تھا ۔ جوکہ سراسر طلب و  سفر  بن چکا تھا۔ قریب تھا کہ مویش کو انگور کی کھٹّاس کا احساس ہوتا اسکا گذر مشرقی یورپ  کے کسی گاؤں سے ہوا ۔ سردیوں کی رات اپنے جوبن پر تھی   کوئی  مناسب جگہ نا ملنے پر  ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ دروازہ ایک عمر رسیدہ شخص نے کھولا اور مویش کا مدعا دریافت کیا۔ مویش نے رات گذارنے کے لیے مناسب جگہ کی درخواست کی۔ سردی سے کانپتے مویش کو دیکھ کر اس عمر رسیدہ شخص کو اس پر رحم آگیا  اور اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ طعام کے بعد مویش سے بولا " ویل ینگ مین! ہمارا گھر چھوٹا سا ہے اور دو ہی بیڈ روم ہیں ۔ ایک میں میں اور میری بیوی رہتے ہیں اور دوسرا کمرہ بے بی کے لیے ہے۔ آپ ایسا کرو کہ بے بی کے کمرے میں جاکر سوجاؤ۔"  مویش نے سوچا کہ بے بی رات میں اٹھ گئی تو اسکی ریں ریں مجھے ہی جھیلنی پڑ جائے گی۔ فوراً کمال انکساری سے بولا " نہیں انکل ! آپ میری فکر نا کریں میں تو ہپی ہوں کہیں بھی سو سکتا ہوں۔ آج کی رات میں ڈرائنگ روم کے صوفہ پر سو کر گذار لوں گا"  بوڑھا آدمی یہ بات سن کر شب بخیر کہتا ہوا   اپنے کمرے میں چلا گیا ۔  صبح اسکو اسی بوڑھے نہیں اٹھایا اور ناشتہ کی دعوت دی جسے اس نے بڑی خوشدلی سے قبول  کرلی۔ ناشتہ میز پر لگ گیا تو  وہ  ناشتہ کی میز کی طرف چلا آیا  لیکن بیٹھنے سے پہلے اسے ایک زوردار جھٹکا لگا ۔ اسکے سامنے والی کرسی پر ایک حسینہ نازنین و خوش ادا پہلے سے براجمان توس لگے جام کو نہایت نفاست سے کُتر رہی تھی۔   مویش کی رال اسی وقت بہہ نکلی باچھیں کھل اٹھیں آنکھوں میں شیطانی چراغ جل اٹھے۔ اسی عالم میں اس نے بوڑھے سے بڑے رسان سے دریافت کیا کہ " انکل  آپ نے اس خوبصورت لڑکی کا تعارف تو کرایا ہی نہیں"  بوڑھا بولا " ویل  ینگ مین! یہ ہماری بےبی ہے"    پھر اس بوڑھے نے پوچھا " ینگ مین ! تم نے اپنا نام تو بتایا ہی نہیں"  لیکن  مویش تو گمُ صمُ بیٹھا   اپنی تقدیر کو کوس رہا تھا ۔چہرے پر تاریک سائے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اسکے ساڑھے چھ بج چکے ہیں۔  بوڑھے  کے نام دوبارہ دریافت کرنے پر  اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا  " میں کھوتا ہوں" ۔

0 تبصرے:

تبصرہ ارسال کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں